Advertisements
آزانِ صبح تھی اور ہم زندگی ہار رہے تھے
قضا ہو چلی تھی نمازِہستی اور ہم زندگی ہار رہے تھے
تنہائی بھری وہ رات اندھیری اب مٹ چکی تھی
روشنی جو چھا چلی تھی اور ہم زندگی ہار رہے تھے
جواں تھیں حسرتیں اب بھی دل میں
یاس مگر اب گھٹ چلی تھی اور ہم زندگی ہار رہے تھے
امید و غم میں جو بیتا چلے زندگی
وہ ہنس چلی تھی اور ہم زندگی ہار رہے تھے
چھائے ہوئے تھے یادوں کے دھندلکے
یاد اپنوں کی آ چلی تھی اور ہم زندگی ہار رہے تھے
نگاہ حسرت کچھ ڈھونڈتی تھی زیب، مگر
آزاد ہو چلی تھی روح اور ہم زندگی ہار رہے تھے
0 Comments